21 نومبر، 2024، 1:51 PM

جنگ اور امن، ایران اور حزب اللہ ہر محاذ پر ساتھ ساتھ

جنگ اور امن، ایران اور حزب اللہ ہر محاذ پر ساتھ ساتھ

حزب اللہ اور صہیونی حکومت کے درمیان جاری جنگ خطے میں طاقت کا توازن بدل دے گی، حزب اللہ نے ہمیشہ صہیونی حکومت کے مظالم کا مضبوط چٹان کی طرح مقابلہ کیا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ حزب اللہ اور صہیونی حکومت کے درمیان جاری کشیدگی عروج پر پہنچ گئی ہے۔ حزب اللہ کے میزائل تل ابیب کے مرکز تک پہنچ گئے ہیں جس سے صہیونی حکومت اور امریکہ انگشت بدندان ہیں۔ اس سے نہ صرف حزب اللہ کی دفاعی طاقت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے بلکہ صہیونی حکومت اور اس کے مغربی حامیوں کے مقابلے میں ایران کا مرکزی کردار بھی سامنے آتا ہے۔

اس جنگ میں حزب اللہ کی کامیابیوں سے اس کی دفاعی طاقت اور اسٹریٹیجک حکمت عملی واضح ہوتی ہے۔ اس تنظیم نے وقت کے ساتھ خود کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کیا ہے۔ ایران نے جنگ اور صلح کے وقت اس کی حمایت کی جس کی وجہ سے یہ ممکن ہوا۔ حزب اللہ نے بروقت اسرائیل پر بیلسٹک میزائلوں سے حملہ کیا اور صہیونی حکومت ان کو روکنے میں ناکام رہی۔ یہ حزب اللہ کے میزائل نظام کے پیچیدہ ہونے کی علامت ہے۔

حزب کے کامیاب حملوں سے صہیونی حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ امریکہ اور صہیونی حکومت کے مغربی اتحاد اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہوچکے ہیں لہذا جنگ بندی کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ صہیونی حکومت مزید جانی اور مالی نقصانات کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔

ایران نے حزب اللہ کی دفاعی امداد کے علاوہ اقتصادی امداد کی۔ جب امریکہ اور مغربی ممالک کی پابندیوں کی وجہ سے لبنان اقتصادی طور پر مفلوج ہوچکا تھا اس وقت عرب ممالک نے بھی لبنان سے منہ موڑا لیکن ایران نے تیل اور گیس فراہم کرکے مغربی منصوبے کا ناکام بنادیا۔

ایران اور حزب اللہ کے درمیان تعلق دوستی اور باہمی احترام پر مبنی ہے۔ رہبر معظم اور صدر سمیت تمام ایرانی حکام لبنان کی حاکمیت اور خودمختاری پر تاکید کرتے ہیں۔ دونوں کے درمیان تعلقات کی جڑیں عوام میں پائی جاتی ہیں چنانچہ حالیہ دنوں میں مقاومت کے لئے ایرانی عوام مخصوصا خواتین نے دل کھول سونے اور دیگر جواہرات اور نقدی کے عطیات دیے۔

اس کے مقابلے مغربی ممالک کی پالیسی خطے میں عدم استحکام پھیلانا ہے۔ صہیونی حکومت اس ناپاک منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مغرب کی نمائندگی کررہی ہے۔ لبنان اور غزہ پر ہونے والے حملوں کی کڑی ایک دوسرے ملتی ہے۔ اگر لبنان مستحکم ہوجائے تو مغرب کا منصوبہ خطرے پڑے گا لہذا مغربی ممالک مقاومت کے خلاف پروپیگنڈا کرکے لبنان کو غیر مستحکم کرنے کی سازش کررہے ہیں۔

حزب اللہ کی قیادت میں فعال مقاومت ایک دفاعی نظام سے بالاتر ہے جو مختلف شعبوں میں کردار ادا کررہی ہے۔ مقاومت کی جڑیں عرب ثقافت اور اسلامی تعلیمات میں پیوست ہیں۔ مغربی ممالک اس شناخت کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور اس کی جگہ مغربی انسانی اقدار سے خالی ثقافت مسلط کرنا چاہتے ہیں۔

مقاومت سے بیرونی طاقتوں کے علاوہ اندرونی سطح پر موجود بیرونی ایجنٹوں کے لئے بھی خطرہ ہے۔ خطے کے بعض افراد اور ادارے بیرونی مقاصد کی تکمیل کے لئے سرگرم ہیں۔ خطے کے عوام کو ان چہروں کو پہچان کر ان کے اہداف ناکام بنانا چاہئے۔

ایران خطے میں استحکام اور اس کی شناخت برقرار رکھنے کے لئے لبنان، شام اور عراق میں مقاومت کی مدد کررہا ہے۔ ان ممالک کے درمیان موجود ثقافتی، تاریخی اور مذہبی روابط مقاومت کو مزید مستحکم کرتے ہیں۔ مقاومت مضبوط ہونے سے ایران کے خلاف مغربی ممالک کی سازشیں بھی غیر موثر ہوجاتی ہیں۔ 

مغرب ممالک نے جنگوں اور پابندیوں کے ذریعے ہمیشہ خطے کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایران نے مغرب کی اس کوشش کو ناکام بنانے کے لئے ہمیشہ مثبت حکمت عملی اختیار کی ہے۔ حزب اللہ اور دیگر تنظیموں کی مقاومت کی وجہ سے صہیونی حکومت بری طرح بحران میں پھنس گئی ہے جس کے اس کا وجود خطرے میں پڑگیا ہے اسی وجہ سے غزہ اور لبنان میں بے گناہ سویلین کو ہدف بنارہی ہے۔

ایران اور حزب اللہ کی مقاومت کے نتیجے میں اسرائیل کے ساتھ مغربی ممالک کے مفادات بھی خطرے میں پڑگئے ہیں۔ خطے کے عوام اجتماعی نکات پر متفق ہورہے ہیں۔ عرب اور اسلام کا رشتہ ان کو متحد کررہا ہے۔ مقاومت ان اقدار کے ذریعے دشمن کا مقابلہ کررہی ہے۔

حزب اللہ نے دفاع کے بعد صہیونی حکومت پر حملے کا آغاز کردیا ہے جس سے صہیونی حکومت اور اس کے مغربی حامیوں کو نئے چیلنج کا سامنا ہوگیا ہے۔ مغربی ممالک کی سازشوں کے مقابلے میں خطے کے عوام کے درمیان ہمبستگی اور ہمدردی کا جذبہ بیدار ہورہا ہے۔

ایک زمانے میں خطے میں صہیونی حکومت کا کوئی رقیب نہیں تھا۔ آج اس کو سخت حریف کا سامنا ہے جو کسی بھی تسلیم کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس جنگ میں خطے میں طاقت کا توازن بدلے گا اور عدالت اور حق کی حاکمیت کی جنگ فیصلہ کن رخ اختیار کرے گی۔ اللہ کا وعدہ پورا ہوکر رہے گا کہ حزب اللہ یعنی اللہ کی فوج اس جنگ میں کامیاب ہوگی۔

محمد علی صنوبری؛ ڈائریکٹر نگاہ نو اسٹریٹجک اسٹڈیز سینٹر

News ID 1928271

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha